جدائی کا درد

جدائی کا درد

جدائی کا درد

ابتداء

وہ دسمبر کی سرد شام تھی۔ لاہور کی فضا میں دھند کا راج تھا، اور سڑکوں پر چلتے لوگ اپنے آپ میں گم دکھائی دیتے تھے۔ اسی شہر کے ایک کونے میں واقع پرانے مکان کی چھت پر زہرا ایک کمبل میں لپٹی بیٹھی تھی، ہاتھ میں ایک پرانی ڈائری اور آنکھوں میں نمی۔ وہ ہر روز شام کو وہیں آتی، اور ماضی کے اوراق پلٹتی، جیسے وقت کو واپس کھینچ لینا چاہتی ہو۔

“علی…” وہ آہستہ سے بولی، جیسے اس کا نام زبان پر لانا ہی دل کو تسلی دے رہا ہو۔ وہی علی، جو کبھی اس کی دنیا تھا۔ وہ جو اس کی ہنسی کا سبب تھا، جو اس کے خوابوں کا شہزادہ تھا۔ لیکن اب… وہ صرف ایک یاد بن کر رہ گیا تھا۔

زہرا اور علی کی پہلی ملاقات کالج کے سیمینار میں ہوئی تھی۔ زہرا اردو ادب کی طالبہ تھی، اور علی انگلش لٹریچر کا اسٹوڈنٹ۔ دونوں کا دائرہ مختلف تھا، لیکن دلوں کی زبان ایک جیسی تھی۔ علی نے جب پہلی بار زہرا کی نظم سنی، تو جیسے دل رک گیا ہو۔

“آپ کی آواز میں جادو ہے، اور الفاظ میں احساس…” علی نے سیمینار کے بعد زہرا سے کہا تھا۔ زہرا نے مسکرا کر نظریں جھکا لی تھیں۔ وہ پہلی نظر تھی، جس نے دونوں کے دل میں کچھ خاص بسا دیا۔

پھر وقت کے ساتھ ساتھ ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ کبھی لائبریری، کبھی کیفے، کبھی کالج کے باغیچے میں لمبی باتیں۔ زہرا علی کی سنجیدگی سے متاثر ہوئی، اور علی زہرا کی سادگی کا دیوانہ ہو گیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی کمی پوری کرنے لگے تھے۔

ایک خوبصورت دور

محبت کا وہ دور، جب ہر لمحہ حسین لگتا ہے۔ جب بارش میں بھیگنا، کتابوں پر بات کرنا، اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرانا — سب کچھ خوابوں جیسا لگتا ہے۔ زہرا اور علی کے درمیان ایسا ہی رشتہ تھا۔ نہ رسمی، نہ مشروط — صرف خالص محبت۔

زہرا کو علی کے ساتھ ہر لمحہ قیمتی لگتا۔ وہ اکثر اپنی ڈائری میں لکھتی، “یہ وقت جو میرے اور علی کے درمیان ہے، یہ ہمیشہ کا ہو۔” اور علی… وہ ہر بار زہرا سے ملنے کے بعد اپنی ماں سے کہتا، “امی، مجھے زہرا سے شادی کرنی ہے۔”

علی کے ماں باپ شہر کے بڑے کاروباری لوگ تھے۔ ان کی سوچ تھی کہ بیٹے کی شادی بھی کسی بڑے گھرانے میں ہو۔ مگر علی دل سے زہرا کو چاہتا تھا۔ اس نے ٹھان لیا تھا کہ وہ زہرا سے ہی شادی کرے گا، چاہے دنیا کچھ بھی کہے۔

مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ علی کے گھر والوں کو جب زہرا کے بارے میں علم ہوا، تو گھر میں طوفان آ گیا۔ علی کی ماں نے صاف کہا، “ایک ادبی لڑکی سے ہمارے بیٹے کی شادی؟ یہ ناممکن ہے۔”

علی نے بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ “امی، وہ لڑکی میرے دل کی آواز ہے۔ اس میں سچائی ہے، خلوص ہے، اور سب سے بڑھ کر… وہ مجھے مکمل کرتی ہے۔” مگر جواب ہمیشہ ایک ہی ملا: “یہ شادی نہیں ہو سکتی۔”

زہرا کو جب اس ساری صورتِ حال کا علم ہوا، تو اس کے چہرے کی رنگت اڑ گئی۔ وہ کئی دن تک خاموش رہی، جیسے الفاظ کھو گئے ہوں۔ علی نے اسے ملنے بلایا۔ وہ گارڈن میں ملی، وہی جگہ جہاں کبھی وہ دونوں ہنسا کرتے تھے۔

“زہرا، میں لڑ رہا ہوں۔ لیکن میرے گھر والے نہیں مان رہے۔” علی نے بے بسی سے کہا۔ زہرا نے نظریں نیچی کرتے ہوئے جواب دیا، “میں تمہیں لڑتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی علی… تمہارا سکون مجھ سے زیادہ اہم ہے۔”

علی نے اس کے ہاتھ کو تھاما، “میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔” مگر زہرا نے ہاتھ ہٹا لیا۔ “کبھی کبھی محبت میں چھوڑ دینا ہی اصل محبت ہوتی ہے، علی۔”

وہ لمحہ، جب دو دل جدا ہو رہے تھے، لیکن آنکھیں ایک دوسرے میں ڈوبی تھیں۔ وہ جدائی کا لمحہ تھا، جو عمر بھر کی خاموشی لے آیا۔ علی واپس لوٹ گیا، اور زہرا نے خود کو تنہائی کے حوالے کر دیا۔

جدائی کے بعد

زہرا کی زندگی رک سی گئی تھی۔ وہ اب کالج جاتی، لیکچر دیتی، مگر چہرے پر وہ مسکراہٹ نہیں رہ گئی تھی جو کبھی علی کے ساتھ ہونے سے آتی تھی۔ اس کی آنکھوں کے نیچے حلقے گواہ تھے اس بے چینی کے جو اندر ہی اندر اسے کھا رہی تھی۔

وہ اکثر اپنی چھت پر بیٹھ کر آسمان کو تکتا رہتی، جیسے وہاں کہیں علی چھپا بیٹھا ہو۔ کبھی کبھی ڈائری کے صفحے پر صرف ایک جملہ لکھتی: “علی… تم آج بھی میرے دل میں زندہ ہو۔”

ادھر علی بھی خوش نہیں تھا۔ اگرچہ اس نے ماں باپ کی خواہش پر رشتہ قبول کر لیا تھا، لیکن وہ زہرا کو دل سے نکال نہ پایا۔ شادی کے بعد بھی اس کے کمرے میں وہی پرانی کتابیں تھیں جو زہرا نے اسے دی تھیں، اور وہی نظم جسے زہرا نے ہاتھ سے لکھا تھا۔

علی کی بیوی ایک اچھی خاتون تھی، مگر وہ علی کے دل میں خالی جگہ محسوس کرتی تھی۔ ایک دن اس نے علی سے کہا، “میں جانتی ہوں تم کسی اور کو چاہتے تھے۔ میں تم سے ناراض نہیں ہوں، بس چاہتی ہوں تم سچ کو قبول کرو۔”

یہ سن کر علی کا دل بھر آیا۔ وہ رات گئے تک چھت پر بیٹھا رہا، آنکھوں میں نمی اور ہاتھ میں وہی نظم لیے، جو کبھی زہرا نے اس کے لیے لکھی تھی:

“چاہا تھا جسے دل سے، وہ خواب بن گیا
پایا تھا جو نصیب سے، وہ کتاب بن گیا
زندگی رہی نہ وہی، جب وہ جدا ہوا
وقت رکا رہا، اور میں خراب بن گیا”

کتاب کا آغاز

“جدائی کا درد” — یہ تھا اس کی کتاب کا عنوان۔ ہر باب میں اس کی اور علی کی کہانی تھی۔ اس کی خاموشی، اس کی قربانی، اور اس کی بے بسی۔ اس نے ہر جذبے کو صفحوں پر اتارا۔

کتاب چھپنے کے بعد پورے شہر میں مشہور ہوئی۔ ادبی حلقوں میں چرچا ہونے لگا۔ لوگ کہتے، “یہ تحریر صرف لفظ نہیں، ایک روح ہے جو پڑھنے والے کو ہلا دیتی ہے۔”

زہرا کو دعوت ملی ایک بڑے ادبی میلے میں بطور مہمانِ خصوصی۔ وہ سٹیج پر آئی، اور کتاب کا اقتباس پڑھا:

“کبھی کبھی ہم ان لوگوں سے جدا ہو جاتے ہیں جن سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ انہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں، چاہے خود اندر سے ٹوٹ جائیں۔”

اچانک سامنا

ادبی میلے کے بعد جب وہ کتابوں کے اسٹال پر گئی، تو ایک مانوس سی آواز نے اسے چونکا دیا: “یہ کتاب واقعی دل کو چھو گئی۔”

زہرا نے پلٹ کر دیکھا — سامنے علی کھڑا تھا۔ کچھ بدلا ہوا، مگر آنکھیں وہی، جذبات وہی۔ ایک پل کو خاموشی چھا گئی۔

“میں نے تمہیں معاف نہیں کیا تھا، کیونکہ تم نے کچھ غلط نہیں کیا تھا…” علی بولا، “میں خود سے ناراض رہا ہوں آج تک۔”

زہرا نے آہستہ سے کہا، “محبت کا مطلب ایک ساتھ ہونا نہیں ہوتا… محبت کا مطلب ہے دعا دینا، چاہے وہ کسی اور کے نصیب میں چلا جائے۔”

وہ لمحات دونوں کے لیے ہمیشہ کے لیے دل پر نقش ہو گئے۔ وہ الگ ہوئے، مگر اب دل میں نفرت نہیں، صرف شکر گزاری تھی — اس محبت کے لیے جو کبھی ان کے بیچ تھی۔

اختتام

زہرا اور علی نے دوبارہ کبھی ساتھ رہنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ دونوں اپنی اپنی زندگی میں واپس چلے گئے۔

مگر فرق یہ تھا کہ اب دل میں کوئی خلش نہیں تھی، کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ محبت صرف پا لینا نہیں، محبت کبھی کبھی صرف یاد بن کر جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔

اور شاید یہی اصل محبت ہے — بے غرض، خاموش، اور ہمیشہ کے لیے زندہ۔

اس دن کے بعد زہرا نے کبھی کوئی اور کتاب نہیں لکھی۔ اس کی آخری کتاب تھی:

“محبت، جو جدائی میں بھی مکمل رہی”

جدائی کا درد

ختم شد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top