ماں کی دعا کا اثر
پہلا باب: ایک غریب گھرانے کی کہانی
سردیوں کی ایک ٹھنڈی شام تھی جب ہوا میں نمی کے باعث سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ شہر کے پسے ہوئے محلے کی ایک تنگ گلی میں واقع ایک کچے مکان کے اندر بی بی فاطمہ اپنے بیٹے علی کے لیے رات کا کھانا تیار کر رہی تھیں۔ کمرے میں صرف ایک چراغ جل رہا تھا جس کی مدھم روشنی میں بی بی فاطمہ کے چہرے پر تھکن کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔
علی جو بارہ سال کا ایک ذہین لڑکا تھا، اپنی کتابوں میں گم کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ اس کے کپڑے پرانے اور پیوند لگے ہوئے تھے لیکن اس کی آنکھوں میں علم کی پیاس صاف جھلک رہی تھی۔ اس کا باپ چار سال پہلے ایک حادثے میں چل بسا تھا، تب سے اس کی ماں نے گھر چلانے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔
“اماں، کل اسکول میں فیس کی آخری تاریخ ہے،” علی نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ بی بی فاطمہ کے ہاتھ سے چمچ چوک گیا۔ اس نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جو اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے ہی شرمندہ ہو رہا تھا۔
“بیٹا، تم پڑھو، میں کچھ نہ کچھ انتظام کر لوں گی،” ماں نے اپنے گداز لہجے میں کہا لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ علی جانتا تھا کہ گھر میں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری ہوتی ہے۔ اس رات وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھا کر سو گئے، لیکن علی کی نیند میں بار بار اسکول سے نکالے جانے کے مناظر گردش کر رہے تھے۔
دوسرا باب: محنت اور جدوجہد
اگلی صبح علی نے اپنے اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب سے ملاقات کی۔ “سر، میں اپنی فیس ادا نہیں کر سکتا، لیکن میں اسکول کا سارا کام کرنے کو تیار ہوں،” علی نے عاجزی سے کہا۔ ہیڈماسٹر صاحب جو ایک تجربہ کار استاد تھے، نے علی کے چہرے پر عزم دیکھا۔
“بیٹا، تمہیں ہم معافی نہیں دے سکتے، لیکن تم اسکول کی لائبریری کی صفائی اور دوسرے چھوٹے موٹے کام کر کے اپنی فیس ادا کر سکتے ہو،” ہیڈماسٹر صاحب نے کہا۔ علی کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ اس دن سے علی کی دوہری زندگی شروع ہو گئی۔ صبح اسکول، دوپہر کو ایک چائے کی دکان پر کام، اور شام کو لائبریری کی صفائی۔
ایک دن جب علی شدید بارش میں گھر واپس جا رہا تھا، وہ بیمار پڑ گیا۔ بخار نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بی بی فاطمہ نے اپنے ہاتھوں سے علی کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کے کمپرس کئے۔ رات بھر وہ علی کے بستر کے پاس بیٹھی رہی، تسبیح ہاتھ میں لیے دعائیں کرتی رہی۔ “اے اللہ، میرے لال کو شفا دے، یہ میری اکلوتی امید ہے،” وہ بار بار دہراتی رہی۔
تیسرا باب: کامیابی کی پہلی سیڑھی
وقت گزرتا گیا۔ علی نے میٹرک کے امتحانات میں پورے ضلع میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اخبارات میں اس کی کامیابی کی خبریں چھپیں۔ ایک دن شہر کے ایک امیر تاجر جناب رحیم الدین جو تعلیم کے سرپرست تھے، علی سے ملنے آئے۔
“بیٹا، تمہاری محنت نے مجھے متاثر کیا ہے۔ میں تمہاری مزید تعلیم کا خرچ اٹھاؤں گا،” جناب رحیم الدین نے کہا۔ بی بی فاطمہ کے آنسو نکل آئے۔ اس نے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا دی: “اللہ تمہیں جزائے خیر دے، تم نے ایک ماں کی دعائیں لے لی ہیں۔”
کالج کی زندگی میں علی نے اور بھی محنت کی۔ وہ صبح چار بجے اٹھتا، نماز پڑھتا، پھر مطالعہ کرتا۔ اس کے کمرے کی دیوار پر اس نے اپنی ماں کا ایک فوٹو لگا رکھا تھا جو اسے ہمیشہ محنت کی ترغیب دیتا تھا۔
چوتھا باب: زندگی کے امتحان
علی نے یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی اور ایک اچھی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ وہ اپنی ماں کو ایک اچھے گھر میں لے آیا۔ بی بی فاطمہ اب بوڑھی ہو چکی تھیں، لیکن اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں: “بیٹا، تم نے میری تمام قربانیاں رنگ لائیں۔”
لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک دن بی بی فاطمہ شدید بیمار ہو گئیں۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ عمر کا تقاضا ہے۔ علی نے اپنی ماں کے لیے بہترین ہسپتال کا انتظام کیا، لیکن ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا۔
اپنی آخری رات، بی بی فاطمہ نے علی کو پاس بٹھایا۔ “میرا لال، میں تمہیں چھوڑ کر جا رہی ہوں، لیکن میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔ جب بھی تم مشکل میں ہو، ماں کی دعا تمہیں یاد کر لینا،” یہ کہہ کر اس نے اپنے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اگلی صبح بی بی فاطمہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
پانچواں باب: ماں کی وراثت
ماں کے جانے کے بعد علی کی زندگی میں ایک عجیب سا خلا پیدا ہو گیا۔ وہ اپنے گھر میں تنہا رہ گیا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی ماں کے صندوقچے سے ایک پرانا خط پایا جس میں لکھا تھا: “میرا بیٹا، اگر تم یہ خط پڑھ رہے ہو تو میں اس دنیا میں نہیں ہوں گی۔ میری تم سے ایک درخواست ہے کہ تم دوسرے غریب بچوں کی مدد کرنا، جیسے رحیم الدین نے تمہاری مدد کی تھی۔”
علی نے اپنی ماں کی آخری خواہش پوری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی بچت کی رقم سے ایک چھوٹا سا اسکول بنوایا جس کا نام اس نے “بی بی فاطمہ میموریل اسکول” رکھا۔ یہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔
سالوں بعد جب علی اپنے اسکول کے سالانہ جلسے میں تقریر کر رہا تھا تو اس نے کہا: “آج میں جو کچھ بھی ہوں، اس کی بنیاد میری ماں کی دعاؤں پر ہے۔ ماں کی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی ہے اور پھل دیتی ہے۔”
اسکول کے احاطے میں بی بی فاطمہ کا ایک مجسمہ نصب تھا جس کے نیچے لکھا تھا: “ہر کامیاب انسان کے پیچھے ایک ماں کی دعائیں ہوتی ہیں۔” علی روزانہ اس مجسمے کے سامنے کھڑا ہوتا، اپنی ماں کو یاد کرتا، اور نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھتا۔
اختتامیہ: ایک ابدی سبق
کہانی کا یہ اختتام نہیں بلکہ ایک نیا آغاز ہے۔ ماں کی دعا ایک ایسا تحفہ ہے جو اولاد کو زندگی بھر ساتھ دیتی ہے۔ علی کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مشکلات کبھی مستقل نہیں ہوتیں، اور محنت اور ماں کی دعائیں ہر مشکل کو آسان بنا دیتی ہیں۔
میرے پیارے قارئین، آج اپنی ماں کو گلے لگا لیجئے، ان کے ہاتھ چوم لیجئے، کیونکہ ماں کی دعا ہی وہ حقیقی دولت ہے جو ہمیں زندگی کی ہر جنگ میں کامیاب بنا سکتی ہے۔
مزید مزے دار کہانیاں پڑھیں
وقت کے پار محبت – ایک رومانوی اور سحر انگیز کہانی
محبت کی آخری کال
خاموش لمحے، بولتی آنکھیں
خون کا خط – مکمل اردو کہانی
superb post.Never knew this, appreciate it for letting me know.