دل وہیں رک گیا تھا
کہتے ہیں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو وقت سے آگے نکل جاتے ہیں، دل کی دھڑکنوں میں رُک جاتے ہیں اور پھر زندگی بھر یاد رہتے ہیں۔ یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی لمحے کی ہے، جہاں وقت تھم گیا، سانسیں رک گئیں، اور بس ایک جذبہ باقی رہ گیا – محبت۔
پہلا دن، پہلا لمحہ
مہرین ایک حساس اور خوددار لڑکی تھی۔ لاہور یونیورسٹی میں اردو ادب کی طالبہ، جذبات کی گہرائی میں رہنے والی، اور لفظوں میں اپنی دنیا بسانے والی۔ وہ اکثر لائبریری کے ایک مخصوص گوشے میں بیٹھ کر شاعری پڑھا کرتی، اور خاموشی سے اپنے دل کی باتیں ڈائری میں لکھتی۔
وہ زندگی سے مطمئن تھی، مگر ایک خالی پن ہمیشہ ساتھ رہتا۔ جیسے کوئی ادھورا خواب جو مکمل ہونے کو ہو، مگر وقت اسے روک لے۔
ادھر حسن، ایک پراعتماد، خوش اخلاق اور گہری سوچوں والا نوجوان، جو بزنس ایڈمنسٹریشن کا طالب علم تھا۔ ادب سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا، مگر دل کا نرم اور وفادار انسان تھا۔
نظریں، لمس، اور ایک خاموش دھڑکن
یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں جب حسن اور مہرین کی پہلی نظر ملی، کچھ لمحے جیسے رک گئے۔ حسن کو لگا جیسے یہ چہرہ وہ برسوں سے جانتا ہے۔ اور مہرین نے پہلی بار کسی اجنبی کی نظر میں اپنا عکس دیکھا۔
یہ صرف پہلی نظر نہیں تھی – یہ پہلا قدم تھا ایک ایسے رشتے کی طرف جس کا کوئی نام نہ تھا، مگر دل اسے پہچان چکا تھا۔
کچھ دنوں بعد وہ دونوں ایک گروپ پراجیکٹ میں شامل ہوئے۔ رسمی باتوں سے شروعات ہوئی، پھر ادب، موسم، چائے، فلموں تک بات پہنچ گئی۔
خاموش تعلق، محبت کی پہلی جھلک
یونیورسٹی کی چھت پر بیٹھے ایک دن، بارش ہو رہی تھی۔ حسن نے مہرین سے پوچھا، “تمہیں بارش کیوں پسند ہے؟”
مہرین نے مسکرا کر کہا، “کیونکہ اس میں ہر چیز دھل جاتی ہے… سوائے دل کے دکھوں کے۔”
حسن نے کچھ لمحے خاموشی سے اسے دیکھا اور کہا، “پھر شاید میں وہ بارش بن جاؤں جو تمہارے دل کو بھی دھو ڈالے۔”
یہ جملہ سیدھا دل میں اتر گیا۔ اور یوں دونوں کے درمیان ایک ان کہی محبت جنم لینے لگی۔
دل وہیں رک گیا تھا – پہلا اقرار
ایک دن، یونیورسٹی کا کلچرل فیسٹیول تھا۔ سب خوش تھے، قہقہے، موسیقی، رنگ، روشنی۔ حسن نے مہرین کو لائبریری کے اسی کونے میں بلایا جہاں وہ اکثر بیٹھتی تھی۔
ہاتھ میں ایک چھوٹا سا لفافہ تھا۔ اس میں ایک نظم لکھی تھی:
دل وہیں رک گیا تھا، جب تم نظر آئی تھیں
وقت وہیں ساکت ہوا، جب تم مسکرائی تھیں
اب تو ہر لمحہ تم ہو، ہر خواب تمہارا ہے
محبت کا یہ موسم… اب صرف ہمارا ہے
مہرین نے بے اختیار آنکھیں بند کر لیں۔ اور جب کھولیں، تو آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
“مجھے نہیں معلوم یہ کیا ہے، مگر میں یہ چاہتی ہوں کہ یہ کبھی ختم نہ ہو۔”
خوشیوں کے دن، خوابوں کی دنیا
اب وہ دن رات ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے۔ لائبریری، کیفے، چھت، گنگناتی بارشیں، شاعری، سچائیاں – سب کچھ جیسے فلمی دنیا کا حصہ لگتا۔
حسن کی ماں بیمار تھیں، مگر وہ ہر لمحہ مہرین کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتا۔ وہ کہتا، “زندگی میں پہلی بار دل لگا ہے، اور میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔”
مہرین اپنے ہر دن کو ایک نیا خواب سمجھ کر جیتی۔ اس کے لیے حسن صرف ایک محبت نہیں، بلکہ مکمل دنیا تھا۔
ایک کڑوا سچ، ایک خاموش شام
مگر خوشیوں کا سورج ہمیشہ نہیں چمکتا۔ ایک دن، حسن نے مہرین سے کہا، “میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں، مگر ڈرتا ہوں کہ تم چلی نہ جاؤ۔”
“سچ وہی ہوتا ہے جو بتا دیا جائے۔ اگر چھپایا جائے تو وہ جھوٹ سے بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔” مہرین نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
حسن نے سر جھکا کر کہا، “میری منگنی ہو چکی ہے… بچپن میں۔”
مہرین کا چہرہ جیسے سُن ہو گیا۔ الفاظ کھو گئے، آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ چپ چاپ اُٹھی، اور چل دی۔
بچھڑنے کے دن
اگلے دن سے مہرین یونیورسٹی نہیں آئی۔ حسن نے بہت بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ دن ہفتے بنے، ہفتے مہینے، اور مہینے سال۔
وقت گزرتا گیا، مگر حسن کا دل وہیں رکا رہا… جہاں مہرین اسے چھوڑ گئی تھی۔
اس نے منگنی توڑ دی، مگر مہرین کبھی واپس نہیں آئی۔
پانچ سال بعد…
ایک شام، حسن لاہور کے ایک کتاب میلے میں گیا۔ ایک گوشے میں ایک لڑکی کتابوں پر دستخط کر رہی تھی۔ نام تھا: “مہرین حسن – نظموں کی خاموشی”
حسن کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ وہ اُس کے سامنے آیا۔
مہرین نے نظر اٹھائی۔ دونوں چند لمحے خاموش رہے۔
“میں تمہیں ڈھونڈتا رہا…” حسن نے کہا۔
“میں خود کو ڈھونڈ رہی تھی۔” مہرین کا جواب تھا۔
“اور اب؟”
“اب شاید دل دوبارہ چلنے لگا ہے۔”
اختتام جو اصل میں شروعات ہے
کبھی کبھی محبت مکمل ہو کر بھی ادھوری لگتی ہے۔ اور کبھی کبھی ادھوری محبت ہی مکمل بن جاتی ہے۔
حسن اور مہرین نے دوبارہ رشتہ شروع کیا، مگر اس بار بغیر وعدوں، بغیر دعووں – بس سچائی، محبت اور وقت کی قدر کے ساتھ۔
دل وہیں رک گیا تھا، مگر اب… دوبارہ دھڑکنے لگا ہے۔
Some really fantastic information, Glad I discovered this.