تم ملے، تو خواب جینے لگے

تم ملے، تو خواب جینے لگے

تم ملے، تو خواب جینے لگے

کہتے ہیں خواب وہ نہیں ہوتے جو سوتے ہوئے دیکھے جائیں، بلکہ وہ ہوتے ہیں جو جاگتے ہوئے دل میں بسا لیے جائیں۔ اور کبھی کبھی، کوئی ایک شخص ایسا آتا ہے جو ان خوابوں کو حقیقت کی سانس دے دیتا ہے۔ یہ کہانی بھی ایسے ہی ایک لمحے سے شروع ہوتی ہے، جب خواب حقیقت کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔

نایاب – ایک خاموش لڑکی

نایاب ایک سادہ مزاج، نرم دل، اور خاموش سی لڑکی تھی۔ وہ لاہور کے ایک کالج میں فائن آرٹس کی طالبہ تھی۔ اس کی دنیا رنگوں، کتابوں اور تنہائی سے بنی تھی۔ وہ اکثر تنہائی میں بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھتی، اور سوچتی کہ کیا واقعی کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے جو اسے اُس کی ادھوری دنیا سے نکال کر مکمل کر دے؟

اس کے خواب بڑے تھے، مگر وہ کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتی تھی۔ اس کی ڈائری میں صرف ایک جملہ بار بار لکھا ہوتا: “کاش! کوئی ایسا ہو جو میرے خوابوں کو سن لے۔”

ایزل کے پاس پہلی نظر

ایک دن، جب کالج میں نمائش کی تیاری ہو رہی تھی، نایاب ایزل پر ایک خواب جیسا منظر پینٹ کر رہی تھی — چاندنی رات، خاموش جھیل، اور تنہا لڑکی۔ اس کے ہاتھ رنگوں سے بھرے ہوئے تھے جب اچانک ایک نئی آواز نے اسے چونکا دیا۔

“یہ منظر… میں نے خواب میں دیکھا ہے۔”

نایاب نے پلٹ کر دیکھا، ایک اجنبی لڑکا کھڑا تھا۔ لمبا قد، گہری آنکھیں، اور چہرے پر وہی حیرانی جو اکثر دل کے اندر اُترنے سے پہلے نظر پر آتی ہے۔

“میں علی ہوں، گرافک ڈیزائننگ کا نیا سٹوڈنٹ۔”

نایاب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ بڑھایا، “نایاب۔”

خوابوں کی پہچان

اُس دن کے بعد علی اور نایاب اکثر ساتھ بیٹھتے، کبھی تصویریں بناتے، کبھی چپ چاپ بیٹھ کر بارش دیکھتے۔ علی کو نایاب کی خاموشی میں عجیب سی باتیں سنائی دیتی تھیں، اور نایاب کو علی کی موجودگی میں پہلی بار اپنے خواب جیتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔

ایک دن علی نے پوچھا، “تم نے کبھی کسی سے محبت کی؟”

نایاب نے نظریں جھکا کر کہا، “شاید ہر بار جب میں کسی منظر میں خود کو اکیلا پینٹ کرتی ہوں، میں محبت ہی کر رہی ہوتی ہوں… اُس سے جو ابھی آیا نہیں۔”

علی نے کہا، “تو کیا میں دیر سے آیا؟”

نایاب کی آنکھوں میں نمی اور مسکراہٹ ایک ساتھ چمکنے لگی۔

وقت کے پار

وقت گزرتا گیا، اور ان کے درمیان ایک خاموش تعلق پروان چڑھتا رہا۔ وہ ایک دوسرے کو الفاظ سے نہیں، لمحوں سے سمجھنے لگے تھے۔

پھر ایک دن علی نے نایاب کو اپنی ایک نظم سنائی:

“تم ملے، تو خواب جینے لگے
خاموشیاں بولنے لگیں، دعائیں سننے لگیں
جھیل کی سطح پر چاند اتر آیا
اور میرا دل… صرف تمہارے لیے دھڑکنے لگا۔”

نایاب نے پہلی بار علی کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔ وہ لمحہ جیسے رک گیا ہو، اور وقت نے انہیں بس ایک دوسرے کے لیے چھوڑ دیا ہو۔

ایک غلط فہمی

مگر محبت ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ ایک دن علی کی باتوں سے نایاب کو لگا کہ وہ کسی اور سے بھی رابطے میں ہے۔ اُس کے دل میں شک کی ایک چنگاری جاگ گئی۔

اس نے خود کو علی سے دور کرنا شروع کر دیا۔ فون نہ اٹھانا، میسجز کا جواب نہ دینا، اور کالج میں بھی خاموشی سے نکل جانا۔ علی حیران تھا، وہ بے چین ہو گیا۔

پھر ایک دن وہ نایاب کے گھر کے باہر آ گیا۔ بارش ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں نایاب کی ڈائری تھی جو وہ کسی دن بھول گئی تھی۔

علی نے دروازے پر دستک دی، اور جب نایاب باہر آئی، وہ بھیگی آنکھوں سے بولا:

“تمہارے خواب سننے آیا ہوں۔ لیکن اگر تم کہو، تو چلا جاؤں گا۔”

نایاب رو دی۔ “مجھے لگا… تم بدل گئے ہو۔”

علی نے نرمی سے کہا، “بدلا نہیں ہوں، بس تمہارے اندر اترنے کی کوشش کر رہا تھا۔”

نئی زندگی، نیا خواب

اس دن کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ نایاب نے اپنی پہلی نمائش میں علی کو اپنا خاص مہمان بنایا۔ اُس کی ہر تصویر میں اب تنہائی نہیں، امید دکھائی دیتی تھی۔

علی نے اُسی نمائش میں سب کے سامنے نایاب سے محبت کا اظہار کیا۔

“تم ملے، تو خواب جینے لگے — اب اگر تم نہ ہو، تو زندگی صرف وقت ہے۔”

نایاب نے ہنس کر کہا، “اور تم ہو، تو وقت خود خواب بن جاتا ہے۔”

اختتام جو آغاز ہے

آج نایاب اور علی ایک چھوٹے سے اسٹوڈیو میں مل کر بچوں کو آرٹ سکھاتے ہیں۔ ان کے اسٹوڈیو کا نام ہے: “خواب رنگ”۔

جب بارش ہوتی ہے، نایاب کھڑکی کے پاس بیٹھ کر علی کا ہاتھ تھامتی ہے، اور وہ دونوں ایک ہی خواب دیکھتے ہیں۔

اور ان کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ محبت اگر سچی ہو، تو خواب صرف دیکھے نہیں جاتے… وہ جینے لگتے ہیں۔

 

مزید مزے دار کہانیاں پڑھیں

وقت کے پار محبت – ایک رومانوی اور سحر انگیز کہانی

محبت کی آخری کال

خاموش لمحے، بولتی آنکھیں

خون کا خط – مکمل اردو کہانی

محبت بارش کی طرح تھی

1 thought on “تم ملے، تو خواب جینے لگے”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top