وقت کے پار محبت
یہ کہانی ہے حنین کی، ایک خاموش طبع مگر خوابوں سے لبریز لڑکی، جسے ماضی سے حد سے زیادہ لگاؤ تھا۔ پرانے خطوط، ریڈیو کے نغمے، بلیک اینڈ وائٹ فلمیں — وہ سب کچھ جس میں پرانی محبت کی خوشبو آتی ہو۔
ایک دن، لاہور کے ایک پرانے کتب خانے سے گزرتے ہوئے، اسے ایک بھولی بسری ڈائری ملی۔ ڈائری کے اوراق پیلے ہو چکے تھے، لیکن ان میں موجود لفظ آج بھی زندہ تھے۔ یہ ڈائری کسی “سلمان” کی تھی، جس نے 1980 میں کسی نامعلوم لڑکی کے لیے اپنے دل کے جذبات رقم کیے تھے۔
ڈائری کے لفظوں میں کھو جانا
حنین روز رات کو وہ ڈائری پڑھتی، اور ہر صفحے کے ساتھ سلمان کی شخصیت اسے مزید قریب لگنے لگتی۔ اس کی تحریر میں سچائی، درد، اور بے مثال محبت تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ سلمان کون تھا؟ وہ کس سے محبت کرتا تھا؟ اور کیا اس کا دل کبھی سکون پا سکا؟
ایک رات، اس نے محسوس کیا جیسے سلمان اس سے کچھ کہنا چاہ رہا ہو۔ لفظ کاغذ پر چمکنے لگے، جیسے وہ زندہ ہو چکے ہوں۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ اس نے آہستہ سے وہ آخری صفحہ کھولا:
“اگر کبھی تم میرے لفظوں کو محسوس کرو، تو شاید ہم وقت کی دیوار پھلانگ لیں۔”
سفر جو حقیقت بن گیا
حنین نے وہ صفحہ بند کیا، اور روشنی بند کرتے ہی کمرہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ جب آنکھ کھلی، وہ ایک اجنبی کمرے میں تھی۔ کھڑکی سے باہر پرانی گاڑیاں، سادہ لباس، اور 1980 کی خوشبو۔
وہ حیران تھی، مگر دل کسی انجانے یقین سے پُر تھا۔ وہ ایک پارک کی طرف نکلی جہاں ایک نوجوان لڑکا پیڑ کے نیچے بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ جب وہ قریب پہنچی، اس نے آہستہ کہا: “تم… وہی ہو نا؟ حنین؟”
حنین کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ “تم سلمان ہو؟”
سلمان نے مسکرا کر کہا، “میں تمہیں برسوں سے جانتا ہوں… لفظوں میں۔”
وقت کی قید سے آزاد لمحے
حنین اور سلمان نے کچھ دن ساتھ گزارے — وہ شامیں، جن میں سلمان شاعری سناتا، اور حنین ہنستی، روتی، اور خوشبو میں بسا ماضی جیتی۔
ایک دن بارش ہو رہی تھی، دونوں ایک پرانے کیفے میں بیٹھے تھے۔ سلمان نے حنین کی بھیگی زلفوں کو دیکھ کر کہا، “تم بارش میں چمکتے چاند کی طرح ہو، جو ہر قطرے میں محبت بانٹ رہا ہو۔”
حنین کے گال سرخ ہو گئے۔ وہ خاموشی سے اس کے قریب آ گئی، اور سلمان نے بغیر دیکھے، صرف دل سے محسوس کر کے اس کا ہاتھ تھاما۔ ایک لمحہ جو صدیوں پر بھاری تھا۔
لیکن ایک دن، حنین نے خواب میں ایک سایہ دیکھا — وہی ڈائری، جو اب جل رہی تھی۔ ایک آواز آئی، “تمہارا وقت ختم ہو رہا ہے۔ اگر تم رکی، تو سب کچھ بکھر جائے گا۔”
حنین پریشان ہو گئی۔ کیا وہ واپس جا سکتی ہے؟ یا وقت کے خلاف جانے کی قیمت چکانی پڑے گی؟
الوداع کا لمحہ
سلمان کو سچ بتانا مشکل تھا، لیکن اس نے کہہ دیا: “میرا وجود اس وقت کا ہے جس سے تم آئی ہو، اور تمہارا وجود میرے لفظوں کا۔ مگر شاید ہم وقت کو دھوکہ دے سکتے ہیں؟”
سلمان نے پرانے مزار کی سیڑھیوں پر، رات کے اندھیرے میں، محبت کا اعتراف کیا۔ “حنین، اگر تم چلی بھی گئی، میرا دل تمہارے لفظوں میں قید رہے گا۔ ہر کتاب، ہر صفحہ، تمہاری خوشبو لائے گا۔”
حنین نے کہا، “اگر محبت سچی ہو، تو وقت ہار جاتا ہے۔ میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گی — چاہے جسم چلا جائے، روح یہیں رہے گی۔”
واپسی اور ایک معجزہ
جب وہ دوبارہ بیدار ہوئی، وہ اپنے کمرے میں تھی — ڈائری ہاتھ میں، وہی آخری صفحہ کھلا ہوا۔ سب کچھ خواب لگا، مگر دل کہہ رہا تھا، وہ سب کچھ حقیقت تھا۔
کچھ دن بعد، اس نے پرانے ریڈیو چینل پر ایک ریکارڈنگ سنی۔ آواز سلمان کی تھی:
“اگر حنین یہ سن رہی ہو، تو جان لو — محبت وقت کی قید سے آزاد ہو چکی ہے۔ تم میرے لفظوں سے آئی تھی، اور انہی میں امر ہو گئی ہو۔”
اختتام، جو نیا آغاز تھا
حنین نے وہ ڈائری ایک کتاب میں بدلی، “وقت کے پار محبت”۔ کتاب مشہور ہوئی، اور کئی لوگ اس کہانی پر یقین کرنے لگے۔ کچھ نے کہا، یہ صرف تخیل ہے۔ مگر حنین کے دل میں سلمان زندہ تھا۔
ایک دن، ایک نوجوان آیا اور کہا، “یہ سلمان کی دھن ہے، جو اُس نے تمہارے لیے بجائی تھی۔”
حنین مسکرا دی، اور دل میں کہا، “محبت کبھی نہیں مرتی… اگر وہ وقت کے پار ہو جائے۔”
اور یوں، محبت نے وقت کو مات دی۔ اور جو بچا، وہ تھا صرف ایک ایسا رشتہ… جو نہ ختم ہو سکتا تھا، نہ مٹایا جا سکتا تھا۔
مزید اچھی اچھی کہانیاں پڑھیں
Pingback: محبت بارش کی طرح تھی
Pingback: تم ملے، تو خواب جینے لگے
Pingback: ایک محبت جو رہ گئی ادھوری
Pingback: دل وہیں رک گیا تھا
Pingback: ماں کی دعا کا اثر%
order thc edibles for anxiety and stress relief