خون کا خط – مکمل اردو کہانی

خون کا خط – مکمل اردو کہانی

خون کا خط اردو کہانی

رات کے ایک بجے دروازے پر دستک ہوئی۔ ماحول میں خاموشی تھی، مگر دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

“زینب! جا کر دیکھو کون ہے،” اماں نے آہستہ سے کہا۔

زینب، جو شہر کے کنارے واقع ایک پرانے حویلی نما گھر میں رہتی تھی، دروازہ کھولتے ہی چونک گئی — باہر کوئی نہیں تھا، صرف ایک پرانا زرد لفافہ پڑا تھا۔

لفافے پر خون سے لکھا تھا: “اگر تم سچ جانتی ہو، تو خاموش مت رہنا!”

زینب کا رنگ فق ہو گیا۔ وہ خط لے کر کمرے میں واپس آئی، دروازہ بند کیا، اور پڑھنے لگی۔

خط میں صرف چند جملے تھے: “15 سال پہلے جو کچھ ہوا، وہ حادثہ نہیں تھا۔ جس نے تمہارے والد کو مارا، وہ اب بھی تمہارے آس پاس ہے۔ سچ کو دفن مت ہونے دینا — ورنہ تمہاری کہانی بھی وہی انجام پائے گی۔”

اس کے والد، انور حسین، ایک ایماندار پولیس افسر تھے۔ کہا جاتا تھا کہ وہ ایک چھوٹے سے گینگ کی تفتیش کر رہے تھے — اور ایک دن اچانک ان کی لاش دریا کے کنارے ملی۔

تب سب نے کہا: “حادثہ ہوا۔” مگر ماں نے ہمیشہ کہا: “زینب، تیرے ابا کو کسی نے مارا ہے۔ وہ بہت کچھ جانتا تھا۔”

زینب نے خط کو خفیہ رکھا، مگر اندر سے وہ ہل چکی تھی۔ اس نے والد کا پرانا سامان نکالا — پولیس کی فائلیں، ڈائری، اور ایک پرانی کیس فائل: “کیس نمبر 237 – مرزا ندیم گینگ”

فائل میں تین نام درج تھے: ندیم مرزا، کامران، اور بشیر۔ یہ تینوں آج بھی شہر میں موجود تھے — اور آزاد تھے۔

زینب نے فیصلہ کیا: “میں اس کہانی کو ختم نہیں، مکمل کروں گی!”

اس نے سب سے پہلے بشیر کا پیچھا کیا۔ اسے معلوم ہوا کہ وہ اب ایک اسکول میں چپڑاسی ہے۔

ایک دن، وہ اس کے سامنے پہنچی اور کہا: “تم نے میرے والد کو مارنے میں مدد کی تھی۔”

بشیر کانپنے لگا: “میں کچھ نہیں جانتا! مجھے صرف لفافہ پہنچانے کو کہا گیا تھا۔”

زینب کے دماغ میں جھماکا ہوا — کیا بشیر وہی شخص تھا جو آج بھی خط لا رہا ہے؟

بشیر نے اقرار کیا کہ ندیم مرزا آج بھی زندہ ہے اور اپنی شناخت چھپا کر شہر کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں “ڈاکٹر نبیل” کے نام سے کام کر رہا ہے۔

زینب نے اس کا اپائنٹمنٹ لیا۔ اس دن، وہ سیدھی اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔

“آپ ندیم مرزا ہیں۔ میرے والد کے قاتل!”

“تم… تم زینب ہو؟” ندیم نے چونک کر کہا۔

زینب نے فون نکالا، ریکارڈنگ آن کی، اور کہا: “اب سچ عوام کے سامنے آئے گا۔ تمھیں سچ بولنا پڑے گا!”

ندیم نے سب کچھ مان لیا۔ قتل، رشوت، سازش — سب کچھ۔

چند دن بعد، پورے شہر میں خبر پھیل گئی: “سابق پولیس افسر انور حسین کا قتل، 15 سال بعد بے نقاب”

زینب نے والد کے نام پر ایک اسکول قائم کیا — جہاں وہ بچوں کو سچائی، انصاف اور ہمت کی کہانیاں سناتی ہے۔

اب وہ کہتی ہے: “خاموشی سب سے بڑا مجرم ہے — اور خون سے لکھا گیا سچ کبھی مٹایا نہیں جا سکتا!”

2 thoughts on “خون کا خط – مکمل اردو کہانی”

  1. Pingback: ایک محبت جو رہ گئی ادھوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top